Responsive Menu
Add more content here...

فکری ارتداد کا حل حصہ اول

نمبر ایک: فکری، ذہنی اور تہذیبی ارتداد سے بچنے اور بچانے کا سب سے اول ذریعہ اور حل یہ ہے ہمیں اپنے آپ کو ، متعلقین اور ماتحتوں کو مذکورہ بالا اسباب سے مکمل طور پر دور رکھنا چاہیے اور محاسبہ بھی کرتے رہنا چاہیے کہ کہیں کسی چیز میں ہم بھی تو مبتلا نہیں ہو رہے ہیں۔

نمبر دو:  فتنہ خواہ جسمانی ہو یا روحانی، مادی ہو یا غیر مادی، عزت و آبرو کا ہو عفت و عصمت کا، قوی ہو یا ضعیف ، اجتماعی ہو یا انفرادی، سیاسی ہو یا سماجی ہو، ہر طرح کے فتنوں سے حفاظت کے لیے بطور خاص دین و ایمان کی حفاظت و سلامتی کے لیے اللہ تعالی کے حضور گڑگڑا کر کثرت سے دعائیں کی جائیں، یوں تو یہ حکم عام حالتوں میں بھی ہے؛ لیکن ان حالتوں میں دعاؤں کا اہتمام کا بہت زیادہ ضروری ہے۔

حضور ﷺ نے جامع دعا مانگی ہے کہ اے رب العالمیں! فتنہ کافر کا ہو یا ظالم کا، فاسق و فاجر کا ہو یا منافق و ملحد کا، جان و مال کا ہو یا دجال کا ہو، ہر قسم کے شرور و فتن سے امت کو محفوظ فرما، اس لیے ہمیں بھی فتنوں سے نجات کے لیے ان دعاؤں کا کرنا چاہیے: ’’رَبَّنَا لَاتَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ‘‘ اے ہمارے پروردگار! ہم کو کافروں کا تختہ مشق نہ بنا اور اے پروردگار! ہمارے گناہ معاف کر دیجیے، بے شک آپ زبر دست حکمت والے ہیں ۔
( سورہ الممتحنہ : ۵)
حدیث شریف میں ہے: ’’اللہم انی اعوذبک من الفتن ما ظہر منہا و ما بطن‘‘ اے اللہ! آنے والے فتنوں سے ہم تیری پناہ چاہتے ہیں، ظاہری فتنوں سے بھی اور باطنی فتنوں سے بھی۔
( ترمذی شریف )
اور بھی بے شمار آیات و احادیث ہیں، میں دعاؤں کا اہتمام کیا گیا ہے اور بکثرت دعا کرنے کی ترغیب و ترہیب دی گئی ہیں، اس لیے دنیا کی کوئی بھی تدبیر تقدیر کا مقابلہ نہیں کر سکتی، مگر اللہ تعالی نے دعا میں تقدیر کے مقابلے کی طاقت رکھی ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ لَایَرُدُّ القَضَا اِلَّا الدُّعا‘‘ تقدیر کو اگر کوئی چیز بدل سکتی ہے، تو وہ دعا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دعا میں اس ذات سے درخواست ہوتی ہے، جس کے قبضے میں تقدیر ہے، جو مالک ’’کن فیکون‘‘ اور ’’خالق کل شی ‘‘ہے۔
(ترمذی شریف، ابواب القدر، باب لایرد القدر الاالدعا)
نمبر تین
: اسلام ہی ایک واحد راستہ ہے، جس میں راہ نجات ہے، اسی پر مرنا اور اسی پر جینا ہے، یہ عزم مصصم اور پختہ ارادہ رہنا چاہیے، اس لیے کہ ’’ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ‘‘ بلاشبہ پسندیدہ دین اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔
(سورہ آل عمران آیت: ۱۹)
دین اسلام استقامت و پابندی چاہتا ہے، آپ کسی بھی صورت میں ہو قرآن و سنت کی روشنی میں حاصل کردہ اپنے عقائدہ و خیالات، ذکر و اذکار، عبادات و معمولات کو ترک نہ کرناہے، اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پیرویلازم و ضروری ہے، چاہے حالات موافق ہوں یا مخالف، آپ امیری میں ہوں یا غریبی میں، بیمار ہوں یا تندرست، جہاں اور جس حال میں ہوںاللہ کا بندہ بن کر رہیں، کیوں کہ اسلام ایک ایسے انسان کی تشکیل چاہتا ہے، جسے قانون کی کوئی ظاہری یا خفیہ آنکھیں اسے نہ دیکھ رہی ہو، وہاں بھی وہ اپنے آپ کو اللہ عالم الغیب و الشہادۃ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہو ۔
یہی وجہ ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، جس میں مسلمان اللہ کے احکام سے آزاد ہوں ، آقا ﷺ کی سنتوں و شریعت سے منزہ و مبرا ہوںاور یہی چیز ایک مسلمان کو زیب ہےکہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کے مطیع و فرما بردار ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ‘‘جو انسان قیامت کے دن اپنے پرور دگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے گا، اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔
( سورہ نازعات آیت نمبر: ۴۰۔۴۱)
نمبر چار: انسان کے اندر اگر تقوی کی صفت پیدا ہو جائے ، تو پھر ایمان کی حفاظت ، ہدایت اور صراط مستقیم پر استقامت خود اللہ تعالی کی طرف سے نصیب ہوتی رہتی ہے، حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی صلاحیت و صفت پیدا ہو جاتی ہے، حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا انسان پر واضح ہو جاتا ہے، وہ اللہ کی عطا کی ہوئی روشنی میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے، جں کی بنا پر اس کا دین و ایمان محفوظ رہتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَـتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّـکُمْ فُرْقَانًا‘‘ اے ایمان والو! اگر تم تقوی اختیار کرلو گے، تو اللہ تعالی تم کو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی صفت عطا فرما دیں گے ۔
(سورۃ الانفال آیت نمبر: ۲۹)
ایک اور جگہ فرمان الہی ہے: ’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘اے ایمان والو!تم تقوی اختیار کرو اور اللہ کے رسول پر ایمان لے آؤ، وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم (دنیا اور آخرت میں) چلا کرو گے، تمہاری مغفرت فرما دے گا اور اللہ بہت بخشنے والااور بہت رحم فرمانے والا ہے۔
( سورۃ الحدید آیت نمبر: ۲۸)
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صفت کو کیسے حاصل کیا جائے،تقوی والی زندگی کیسے ملے گی؟ تو اللہ تعالی نے اس کی بھی وضاحت فرما دی ہے : ’’یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْن‘‘ اے ایمان والو! تقوی اختیار کرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔( سورۃ التوبہ :۱۱۹)

مذکورہ بالاآیت کریمہ میں بتایا گیا کہ تقوی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ واقعتاً نیک، صالح اور سچے بزرگ ہیں، صوم صلوٰۃ کے پابند نظر آ رہے ہیں ، تو ان سے زیادہ اور خوب خوب صحبت اختیار کی جائے اور ان کے قریب رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ دین و ایمان کی حفاظت و سلامتی میں اللہ والوں کی صحبت کا کتنا اثر و فائدہ ہوتا ہے اور اس کے لیے علما ربانیین و بزرگان دین کی صحب و تعلق کتنی زیادہ ضروری ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top