ادوار تعمیر بیت اللہ اور اس کی فضیلت و اہمیت
بیت اللہ کی عظمت و شوکت اور اس کی تعمیر کب کب ہوئی ہے؟
بیت اللہ شریف ہر زمانے اور صدی میں قابل تعظیم و تکریم رہا ہے، چاہے اسلام سے پہلے کا زمانہ ہو یا اسلام کے بعد کا، کعبہ کی عظمت و شوکت اور احترام میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔
اس کی عزت و سطوت کا سکہ کیوں نہ چہار دانگ عالم میں برقرار رہے، جبکہ اللہ رب العزت نے خود اس کی عظمت و حرمت کو بیان کیا ہے: اِنَّ اَوَّلَ بِیْتٍ وُّضِعَ لِلنّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَّ ہُدیً لِلْعَالَمِیْنْ
(سورہ آل عمران ۹۴)
ترجمہ: بیشک پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے، وہ مکہ میں ہے، جو لوگوں کے لئے متبرک جگہ اور سارے جہان والوں کی ہدایت کا مقام ہے۔
ترجمہ: بیشک پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے، وہ مکہ میں ہے، جو لوگوں کے لئے متبرک جگہ اور سارے جہان والوں کی ہدایت کا مقام ہے۔
دوسری جگہ یوں ارشاد باری ہے: جَعَلَ اللہُ الْکَعْبۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَاماً لِلنَّاس
(سورہ مائدہ ۹۷)
ترجمہ: اللہ تبارک وتعالی نے کعبہ کو جو حرمت والا گھر ہے، لوگوں کے قیام کا سبب بنایا ہے۔
اور بھی بےشمار آیتیں اور احادیث مبارکہ ہیں، جن سے اس کی عظمت، شان و شوکت کا خوب پتہ چلتا ہے۔
بہرکیف! کعبہ کیا ہے اور اس کی تعمیر کب عمل میں آیا اس حوالہ سے ہم بات کرتے ہیں: کعبہ ایک چوکور عمارت ہے، جو مکہ معظمہ میں واقع ہے، جس کی لمبائی شمال و جنوب (اتر و دکھن) میں ہے اور مشرق و مغرب (پورب و پچھم) میں چوڑائی ہے۔
اس میں چار کونے ہیں اور کونے کو عربی زبان میں رکن بھی کہتے ہیں، بعیں اعتبار اس عمارت کے شمال مشرقی (اتر پوربی) کونے کو رکن عراقی کہتے ہیں، چوں کہ اس سمت میں ملک عراق ہے۔
شمال مغربی (اتر پچھمی) کنارے کو رکن شامی کہتے ، کیوں کہ ملک شام اسی جانب ہے۔
جنوب مغربی (دکھن پچھمی) کنارے کو رکن یمانی کہتے ، اس لئے کہ ملک یمن ادھر ہی ہے۔
جنوب مشرقی(دکھن پوری) کنارے میں حجر اسود نصب ہے، یہی وجہ ہے اس کونے کو حجر اسود والا کونا کہا جاتا ہے، اسی کونا سے طواف کی ابتدا اور انتہا ہوتی ہے۔
تعمیر کعبہ کے تعلق سے مفسرین و مورخین کے مختلف آرا ہیں، جن کا احاطہ ناممکن ہے اور مناسب بھی نہیں ہے، اسی لئے ہم مشہور قول کو مختصر انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں: (۱) پہلی مرتبہ ملائکہ کے ذریعے تعمیر کی گئی۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعالی نے ہر چیز سے پہلے پانی پیدا فرمایا اور پانی کو ہوا پر ٹھہرایا، پھر اللہ تعالی نے ایک ایسی ہوا بھیجی، جس سے پانی میں ہل چل پیدا ہوگئی، چناں چہ اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے اسی حرکت میں بیت اللہ والی جگہ قبلہ نما ایک ٹیلہ پیدا کردیا، جہاں دوہزار سال بعد بیت اللہ شریف تعمیر کیا گیا۔
(مصنف عبد الرزاق 90/5)
مجاہد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ بیت اللہ کو زمین سے دوہزار سال قبل بنایا گیا، پھر وہیں سے زمین پھیلائی گئی۔
(شعب الایمان للبیہقی)
بعض مفسرین کا قول ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر آسمان و زمین کی پیدائش سے قبل ہوئی، حضرت آدم علیہ السلام کے بھیجے جانے سے پہلے فرشتوں نے اس کی تعمیر کیا تھا ، جیساکہ حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ میں نے آپ ﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! سب سے پہلے کونسی مسجد بنی، تو آپﷺ نے فرمایا مسجد حرام، پھر کونسی بنی، تو فرمایا: مسجد اقصی میں نے کہا دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا، تو آپﷺ نے فرمایا ’’اربعین سنہ
(بخاری فی احادیث الانبیأ)
دوسری مرتبہ حضرت آدم علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام نے تعمیر کیا: حضرت عطا سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا پر اتارا گیا، حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: اے میرے رب! مجھے ملائکہ کی آواز سنائی نہیں دیتی، جس طرح جنت میں سنا کرتا تھا، فرمایا: اے آدم! تمہاری ادنی سی لغزش کی وجہ سے(ہے) جاؤ میرا گھر تعمیر کرو، جس طرح فرشتوں کو تم نے عرش کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ہے، چناں چہ حضرت آدم علیہ السلام مکہ آئے اور بیت اللہ کی تعمیر کی۔
(البیہقی فی الشعب الایمان)
تیسری دفعہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں نے تعمیر کیا ہے، جیساکہ ازرقی وغیرہ نے حضرت وہب بن منبہ کے حوالے سے بیان کیا ہے۔
(اخبار مکہ 1/8)
چوتھی مرتبہ حضرت ابراہیم و اسمعیل علیہما السلام نے کی ، جس کا تذکرہ قرآن و احادیث میں جابجا ملتا ہے۔
پانچویں مرتبہ قبیلہ عمالقہ نے کیا، چھٹی مرتبہ قبیلہ جرہم نے بنایا، جیسا کہ علامہ شامی نے ابن ابی شیبہ کی روایت نقل کیا ہے۔
(سبل الہدی والرشاد 1/192)
ساتویں دفعہ قبیلہ قریش نے کیا۔
(سبل الہدی والرشاد 1/192)
آٹھویں مرتبہ عبد اللہ بن زبیر کے ہاتھوں ہوئی۔
(بخاری شریف کتاب الحج)
نویں مرتبہ کعبے کی تعمیر حجاج بن یوسف ثقفی نے اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کے حکم پر کی۔
(مسلم شریف کتاب الحج)
دسویں مرتبہ عثمانی خلیفہ سلطان مراد خان کعبہ کی تعمیر نو کی۔
(شفا الغرام باخبار البلد الحرام 1/175)
راجح قول کے مطابق کعبہ اللہ کی پہلی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا ہے: حافظ ابن کثیرؒ نے بھی اسی قول کو ترجیح دیا ہے۔
(البدایہ والنہایہ 1/178)
اس کے بعد کعبہ کی تعمیر کی ذمہ داری بنو عمالقہ اور بنو جرہم نے لیا۔
(اخبار مکہ 1/62)
ان تینوں کے بعد قبیلہ قریش نے ازسرے نو تعمیر کا بیڑا اٹھایا، جس میں آپ ﷺ بنفس نفیس موجود تھے اور حجر اسود آپ کے ہی دست مبارک سے نصب کیا گیا۔
بعدہ عبداللہ بن زبیر بن العوامؓ کے ذریعے تعمیر عمل میں آیا، اس کے بعد حجاج بن یوسف ثقفی اور آخر میں عثمانی سلطان مراد خان نے تعمیر کر وایا۔
اس ترتیب کے اعتبار سے سات مرتبہ تعمیر کعبہ کا واقعہ پیش آیا ہے، جبکہ اس سے قبل والی ترتیب کے مطابق کعبہ کی تعمیر کے واقعات دس مرتبہ پیش آیا ہے۔
افادۂ عام کے لئے یہ بات بھی گوش گزار کرتا چلوں: آپ لوگوں کو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی تعمیر کعبہ کی نوعیت معلوم ہوگی کہ حضرت والا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وہ روایت جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! اگر تمہاری قوم کا خوف نہ ہوتا، تو کعبہ کو اسی حالت بر بناتا، جس طرز بنا قریش سے پہلے کعبہ تھا، چوں کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے اپنے خالہ سے یہ روایت سن رکھا تھا، اس لئے آپﷺ کی خواہش کے مطابق اسی طرز پر کعبہ کی تعمیر کی۔
جب ظالم حجاج بن یوسف ثقفی نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو شہید کردیا، تو کعبہ کو پھر سے طرز قریش پر ہی تعمیر کردیا۔
مرور وقت کے بعد عباسی خلیفہ ہارون رشید نے اردہ کیا کہ پھر سے کعبہ کو ازسرنو سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کی تعمیر کے مطابق تعمیر کرے، لیکن امام مالک رحمۃاللہ علیہ نے اس کی مخالفت کی اور فرمایا: اے امیر المومنین! میں آپ کو اللہ تعالی کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ بیت اللہ کو اپنے بعد آنے والے بادشاہوں کے لئے کھیل نہ بنائیں، جس کا جی چاہے ڈھاتا بناتا رہے۔
یہ بیت اللہ شریف کی تعمیر اور اس کی فضلیت کے اعتبار سے مختصر باتیں ہیں، جن کو پڑھنے کے بعد اس کی عظمت و اہمیت اور تاریخ کی جانکاری میں اضافہ ہوا ہوگا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ