گلدستہ حج و عمرہ (ابتدائیہ)
اس مضمون میں آپ کو حج و عمرہ کی اہمیت و افادیت بتائی جائے گی۔
الفت و محبت عشق و فا سے لبریز عزم و یقیں کا سفر حج ارکان خمسہ میں سے ایک ہے، جو ہر صاحبِ استطاعت، جس کے پاس بیت اللہ جانے آنے کا خرچ، سواری کا انتظام اور اہل و عیال کے لئے اتنی دنوں کی کفالت کا سامان ہو، تو اس شخص پر حج فرض ہے۔
جس کی تائید اس آیت مبارکہ سے ہوتی ہے: وَلِلّٰہِ علٰی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیُّ عَنِ العَالَمِیْنْ
(سورہ آل عمران: ۹۷)
ترجمہ: اللہ جل شانہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ بیت اللہ کا حج(فرض) ہے، جو وہاں پہونچنے کی طاقت رکھتا ہو اور جو منکر ہو، تو (اللہ تعالی کا کیا نقصان ہے) اللہ تعالی تمام جہان سے غنی ہے۔
مذکورہ بالا آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حج صاحب استطاعت پر فرض و ضروری ہے، اس کے باوجود اگر ادا نہیں کرتا، تو گنہ گار ہوگا۔
جیسا کہ آیت بالا میں ذکر کیا گیا ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی عتاب سنایا گیا ہے، اس شخص کے لئے، جو قدرت کے باوجود حج نہیں کرسکا۔
آج ہمارے معاشرے میں کیا ہورہا ہے، لوگوں پر تیس چالیس سال کی عمر میں بھی حج فرض ہو جائے، پھر بھی وہ اپنی زندگی کا آخری ٹائم فریضیۂ حج کے لئے مختص کرتا ہے اور بعض کا تو کوئی ارادہ ہی نہیں ہوتا ہے۔
یاد رکھیے! یعض فقہا کے نزدیک حج کی فرضیت علی الفور ہے یعنی جوں ہی حج کی استطاعت پیدا ہو جائے، فوری ادا کرنا ضروری ہے، تاخیر کی صورت میں گنہ گار ہوگا، اگرچہ ہمارے یہاں تاخیر کی گنجائش ہے، لیکن زندگی کا کیا ٹھکانہ ہے؟
بہرکیف یہ جان اور مال دونوں کا مرکب عبادت ہے، جس کی فضیلت بھی خوب خوب احادیث پاک میں آئی ہے، بطور استفادہ چند احادیث پیش کیا جا رہا ہے: وَالْحَجُّ الْمَبُرُوْرُ لَیْسَ لَۂ جَزَأْ اِلَّا الْجَنّْہْ
(متفق علیہ)
ترجمہ: اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔
اور حضرت عمرو بن عاص والی حدیث کا آخری ٹکڑا ہے: وَأنّٓ الْحَحَّ یَہْدِمُ مَا کَانْ قِبْلَہ
(مسلم شریف)
ترجمہ: بلاشبہ حج گزشتہ گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔
حضرت ابوھریرہ والی مشہور حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے، تاکہ ذہن نشیں رہے: مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یْفُسُقْ رَجَعَ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہٗ اُمُّہٗ
ترجمہ: حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ کے لئے اس طرح حج ادا کرے کہ اس میں نہ رفث ہو (فحش بات) اور نہ فسق ہو (حکم عدولی) تو وہ حج سے ایسے واپس ہوتا ہے، جیسا کہ اس دن تھا، جس دن ماں کے پیٹ سے نکلا تھا۔
قارئین عظام! حج مبرور اور عند اللہ مقبول حج کے لئے اس جملہ آداب کے ساتھ اس کے ارکان و واجبات کو انجام دیا جائے، سنن و مستحباب کی رعایت کی جائے، جو قرآن و احادیث اور سلف و صالحین سے مستنبط ہے، تب کہیں جاکر وہ سعادت اور مقبولیت حاصل ہوگی، جو مذکور کیا گیا ہے، لیکن اس کے لئے پہلے ہمیں تمام مسائل سیکھنے ہوں گے۔
یوں تو حج و عمرہ پر مختصر اور مفصل بےشمار کتابیں (ماشااللہ) دستیاب ہیں اور الحمدللہ ہر ایک کا عظیم فائدہ بھی ہے، تاہم سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا نے لوگوں کو اس قدر گرویدہ اور مشغول کردیا ہے کہ لوگ دینی جانکاری اور مسائل معلوم کرنے کے لئے مفتیان عظام اور کتب کی طرف رجوع بعد میں کرتا ہے پہلے سوشل میڈیا سے جاننے کی کوشش کرتا ہے۔
ایسے میں خدشہ کا ہونا لازمی امر ہے کہ صحیح عقائد و نظریات والے مولف کا مضمون اس کے ہاتھ نہ آکر کسی دشمنان اسلام ملحد، فاسق و فاجر کی لفاظی میں پھنس گیا، تو کیا ہوگا؟
حق کا طالب اور صحیح راہمنائی کا شوق رکھنے والا شخص اپنی کم علمی اور حہالت کی بنا پر سچ اور جھوٹ میں تمیز نہیں کرپاتا ایسے مخلص طالب کے لئے اہل علم حضرات پر راہنمائی نہایت ضروری ہے۔
بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر جدید طریقے اور منفرد انداز میں اسلاف و اکابرین کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اسی سوز و گداز کے ساتھ احقر نے اس سلسلہ کا آغاز کیا ہے، تاکہ جو مقدس مقامات کی زیارات کرنے والے ہیں، انہیں صحیح اور درست راہنمائی حاصل ہوسکے اور دیگر لوگوں کا اس مضمون کو پڑھنے کے بعد حوصلہ، ہمت اور طلب میں اضافہ ہوگا اور اگر کبھی بتوفیق اللہ حج کی سعادت نصیب ہوئی، تو نہایت مفید و معاون ثابت ہوگا۔(ان شا اللہ)
Zabardast