Responsive Menu
Add more content here...

تہذیبی و فکری ارتداد کی تعریف و احکام

اس سلسلہ میں ارتداد کی تعریف و احکام وغیرہ بیان کیے جائیں گے۔

شیطان کو ہرگز یہ بات پسند نہیں کہ مسلمان جنت میں داخل ہوں، اس لیے وہ مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ زنی کے لیے ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور اس طرح ڈاکہ ڈالتا ہے کہ مسلمان اس عظیم نعمت سے محروم بھی ہو جاتا ہے اور اسے احساس تک بھی نہیں ہوتا۔

عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرتد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان یہودی ہوجائے، عیسائی ہو جائے یا مندر میں جاکر بھجن گائے، بوجا پاٹ کرے، گھنٹی بجائے یا بتوں کو سجدہ کرے یعنی کھلم کھلا اعلانیہ طور پر اسلام سے نکل جائے ؛ حالاںکہ ایسی نہیں ہے۔

آدمی روزہ نماز کے ساتھ بھی مرتد ہو سکتا ہے، قرآن کی تلاوت کے ساتھ بھی دین سے پھر سکتا ہے، حدیث شریف پڑھنے پڑھانے کے ساتھ بھی دین سے بیزار ہو سکتا ہے، اس کے تو ہزاروں مثالیں آپ کو مل جائے گی کہ لوگ ان سب اعمال کو اپنائے ہوئے بھی کافر و زندیق ہے، مثلاً قادیانی، شکیل بن حنیف کے متبعین ، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کےذریعے سنتے رہتے ہیں کہ فلاںشخص نے رام مندر کی حمایت یا پوجا پاٹ کی تائیدکی یا دیگر ہندوانہ رسم  و رواج کی طرف داری کی، اسی طرح چند یہ لوگ ہیں: گوہر شاہی ، غامدی اور مرزا جہلمی وغیرہ وغیرہ۔

آج ترقی کا دور ہے، جدت پسندوں اور تعلیم یافتہ لوگوں میں جدت پسندی و جدید الفکری نے بد عقیدگی و ایمانی کمزوری کا ایک دوسرا رنگ اختیار کر لیا ہے، روز مرہ کی زندگی کم علمی یا لاعلمی کی وجہ سے بڑی بے اعتدالیوں کا شکار ہے، نہ ہماری زبانیں قابو میں رہتی ہیں اور نہ ہمارے اعمال و افعال حدودِ شرعیہ کے پابند ہیں، نتیجۂ کار ایسی بہت ساری باتیں ہماری زبانوں سے نکلتی رہتی ہیںیا بے جا اعتراضات کرتے رہتے ہیں، جنہیں ہم بظاہر معمولی سمجھتے ہیں، لیکن وہ ہمیں کفر تک پہنچا دیتی ہیں، ایسے ہی ہمارے بہت سے اعمال و افعال ایسے ہیں، جن کی طرف ہماری توجہ بھی نہیں جاتی، ہم انہیں ہلکا اور معمولی خیال کر رہے ہوتے ہیں؛ لیکن وہ ہمارے ایمان و آخرت کی تباہی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

اسی مناسبت سے یہاں اسلام اور ایمانیات سے متعلق چند کلمات پیش کیے جا رہے ہیں، جن کا ہم بغور مطالعہ کرکے عملی جامہ پہنائیں گے یا ان سے احتیاط کریں گے، تو دنیا و آخرت دنوں جگہوں میں کامیاب و کامران اور سرخرو ہوں گے ۔ (ان شااللہ)

:مرتد یا ارتداد کی تعریف

ارتداد‘‘ یہ مصدر ہے باب افتعال کا، جبکہ ’’ مرتد‘‘ اسی کا اسم مفعول ہےیعنی وہ شخصِ ملعون، جو اسلام سے پھر جائے، جب کہ اس نے کلمۂ کفر یا کفریہ عمل ہوش و حواس میں اپنی رضا و رغبت سے کیا ہو ۔

:مرتد کا حکم

 تین دن تک اسے موقع دیا جائے گا کہ وہ توبہ کرکے اسلام میں لوٹ آئے اور اگر اسے اسلام کے متعلق کوئی شبہ ہو، تو اسے دور کیا جائے گا، اگر وہ لوٹ آتا ہے، تو ٹھیک ہے؛ ورنہ اسلام سے بغاوت کے جرم میں اسے قتل کر دیا جائے گا۔

مرتد کا نماز جنازہ جائز نہیں اور نہ اس سے کسی طرح کا میل جول جائز ہے، نہ اس کے ساتھ کھانا اور نہ ان کے یہاں جانا۔

مرتد سے نکاح ہرگز جائز نہیں، نکاح کے بعد اگر اس کا علم ہو، تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔

فکری ارتداد

اسلام سے برات کا بر ملا اعلان و اظہار نہ کرنے کی بنا پر ہم ذہنی اتداد پر یہ حکم صادر نہیں کر سکتے، تاہم ایسے لوگوں کا خوکو د بدلنے کے بجائے اسلام کو بدل دینے کی خواہش رکھنا، حرمت سود و شراب، عورتوں کے پردے اور دیگر احکاماتِ خداوندی کو فرسودہ گردانتے ہوئے ان میں ترمیم و تنسیخ، حذف و اضافہ کی ضرورت قرار دینا اور پھر اسلام سے جھوٹی محبت کا دعوی کرتے ہوئے برملا اقرار کرنا، جبکہ وہ اپنےزبان حال و قال سے صریحی کفر کو اسلام کی  جھوٹی ہمدری کے پردہ میں چھپانا کس قدر خطرناک اور ایمان سوز ہے؟جس کا اندازہ ہر ذی شعور مومن لگا سکتا ہے۔

1 thought on “تہذیبی و فکری ارتداد کی تعریف و احکام”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top