*والدہ کی وفات کا صدمہ اور دعاؤں کا ثمرہ*
والدہ کی قبر پر پہلی حاضری کے لئے گھر سے نکلا تو یہ زندگی کا مشکل ترین سفر لگا، قدم نہیں اٹھ رہے تھے، میرا رخ ہمارے آبائی قبرستان کی طرف تھا، لیکن ذہن و دماغ الجھا ہوا تھا، قبرستان کے کنارے پہنچا تو راستہ بھر جس طوفان کے آگے میں باندھ باندھنے کی اک ناکام سی کوشش کررہا تھا، وہ پھٹ پڑا، آہوں، آنسوؤں کا اک سیلاب امڈ آیا اور میں اس میں بہتا ہوا نجانے کب اور کیسے والدہ کی قبر پر پہنچا۔
میں ان کے پاؤں کی جانب کھڑا ہوگیا، کیوں کہ زندگی بھر یہی میری پسندیدہ جگہ رہی۔
میری ہچکی بندھ گئی تھی، کیا اب یوں ملاقات ہوا کرے گی؟ آنکھوں کے سامنے اک مونس و شفیق چہرہ ابھرا اور پھر آنسوؤں میں غائب ہوگیا۔
میرے آنسو قبر کی تازہ مٹی کو گیلا کر رہے تھے۔
اچانک! چشم تصور میں سیرت رسول پاک ﷺ کا ایک ورق ابھرا: “حضور پاکﷺ کا بچپن تھا، جب آپﷺ اپنی والدہ کے ہمراہ والد کی قبر کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ تشریف لے گئے، واپسی پر آپ کی والدہ کی طبیعت خراب ہوئی اور راستے میں ہی مقام ابوا پر انتقال ہوگیا۔
انہیں وہیں دفن کر دیا گیا، ان کی خادمہ ام ایمن ؓ بھی ساتھ تھیں، حضور پاک ﷺ صرف چھ سال کے تھے، ام ایمن ؓ بتاتی ہیں کہ ہم چلنے لگے، تو آپ ﷺ والدہ کی قبر سے لپٹ گئے اور کہنے لگے کہ میں والدہ کے بغیر نہیں جاؤں گا۔
پھر ستاون برس بعد جب آپ ﷺ حجتہ الوداع کے لئے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، تو ابوا کے قریب سے گزر ہوا، آپ ﷺ راستہ بدل کر وہاں پہنچے اور ماں کی قبر پر بیٹھ کر گھٹنوں میں سر دیتے ہوئے بچوں کی طرح روتے رہے۔”
میں تادیر والدہ کی قبر پر انتہائی مضطرب کھڑا رہا، قلب و زباں پہ جاری قرآنی آیات آنسوؤں میں بھیگتی رہیں، والدہ کے لئے دعا کو ہاتھ اٹھائے تو مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا، ارے اس ہستی کے لئے دعا، جو زندگی بھر میرے لئے مجسم دعا بنی رہی! لا تعداد مرتبہ ایسا ہوا کہ ادھر انہوں نے دعا کی اور ادھر قبولیت میرے سامنے مجسم ہو گئی، کئی دفعہ کسی ایسے سنگین مسئلے کے متعلق جس کا بظاہر کوئی حل نظر نہ آتا، میں انہیں بتاتا ہی نہیں تھا، تاکہ پریشان نہ ہوں۔
لیکن جیسے ہی انہیں ارد گرد سے اس کا پتہ چلتا، تو وہ دعا کرتیں، بس پھر یوں ہوتا کہ اس مسئلے کا حل خود مجھے ڈھونڈتا پھرتا-
مشاہدات و تجربات کی بناء پر مجھے یہ بات کہنے میں ذرا بھی جھجھک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے یہاں جو لڑکا کی ولادت ہوئی ہے، وہ والدہ ماجدہ مرحومہ کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔
روداد کچھ یوں ہے کہ جب مولانا محمد شعیب اختر قاسمی (ڈلوکھر، مدھوبنی) کو لڑکا ہوا اور مجھے خبر ملی، تو میں والدہ مرحومہ کو کہا کہ “مولانا شعیب کو لڑکا ہوا ہے” تو ماں کہتی ہے کہ “تمہیں بھی ہوگا” اور شاید کہ وہ گھڑی قبولیت کی تھی، جس کا احساس و ادراک آج ہوا ہے۔
والدہ ماجدہ بچہ کی ولادت کے بارے میں اپنی وفات تک پوچھتی رہی اور سوال کرتی رہی، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
بہر کیف میں دعا میں صرف یہی کہہ سکا: ”باری تعالیٰ! زندگی میں میرا کوئی بھی کام تجھے پسند آیا ہے، تو آج اس کا صلہ میری ماں کو دے دے۔“ ماں کی قبر سے آنے کو دل نہیں کر رہا تھا، اب قبرستان مجھے میرا گھر لگ رہا تھا اور باقی ساری دنیا قبرستان!
سیکڑوں صفات و خصوصیات اور مجاہدات و ریاضات کی خوشبوؤں سے ماں کا تیار کردہ خمیر شفقت و محبت کا گہوارہ ہوتا ہے ایثار و قربانی میں بے مثال ہوتی ہے اور یہ بات کسی سے مخفی بھی نہیں ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ باری عز اسمہ جب بندوں سے محبت کا دعوی کرتا ہے، تو اس کے لئے محبت کی مثال ماں کو بناتا ہے اور کہتا ہے کہ “میں انسان کے ساتھ ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہوں” یعنی بےپناہ محبت کرتا ہوں یا یوں بیان کیجئے کہ “اللہ تعالی اپنے بندوں پر ماں کی محبت اور رحم دلی سے زیادہ محبت کرنے والا اور ماں سے زیادہ مہربان ہے” (صحیح بخاری: حدیث نمبر: ٥٩٩٩)
دوسری جگہ اس کی فضیلت و رفعت پر چار چاند لگاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یوں بیان فرمایا: “الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ” کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
آج والدہ کی جدائیگی رولاتی، تڑپاتی اور ستاتی ہے کہ یقیناً ان کی موجودگی ہمارے لئے کتنی بڑی نعمت، عظمت اور خوش قسمتی کی بات تھی۔
لیکن قضائے الٰہی کے آگے ہم سب لاچار و مجبور اور بے بس ہیں اور یہی ہماری پہچان اور کامیابی کی علامت و ضمانت ہے۔
آپ تمام محبین و مخلصین سے عاجزانہ و مخلصانہ گزارش ہے کہ آپ تمام احباب ہماری والدہ کے لیے دعا کریں اللہ جوار رحمت میں جگہ عطافرمائے آمین۔
طالب دعا: محمد ظہیر صاحب قاسمی مدظلہ العالی (ڈلوکھر، مدھوبنی)