فکری ارتداد کے کچھ اسباب
فکری ارتداد کے کچھ اسباب، جن کا جاننا اور ان سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
امت مسلمہ کے اندر اتنی کثرت سے ارتداد کا طوفان آیا ہوا ہے، جو ناقابل بیاں اور افسوس ناک ہے ، اس کے بہت سارے اسباب و جوہات ہیں، جن کا ذکر تفصیل طلب ہے،لیکن ذیل میں چند اسباب ذکر کیے جا رہے ہیں، جن کا جاننا مسلمانوں پر لازم و ضروری ہے، تاکہ کسی ناگہانی حالات میں پڑ کر یا کسی کے دام فریب میں پھنس کر ایمان و اسلام کی دولت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں، مزید ان سے حالات زار کو سمجھنے میں بھی کا فی مدد ملے گی
اسکولوں و کالجوں میں ڈاکہ زنی
جدید تعلیم کے نام پر جس طرح سے مسلم بچوں اور بچیوں کے دل و دماغ میں زہر گھولاجارہا ہے، ان کے دین و ایما پر ڈاکہ زنی کی جا رہی ہے ، الحاد و لادینی کے دہانے پر لانے کے لیے ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے، وہ ظاہر و باہر ہے۔
معصوم بچوں اور بچیوں کے دل کی سادہ تختی پر جو چیز بچپن میں نقش کر دی جائے، تو ساری زندگی اس کا اثر اور رمق باقی رہتاہے، اسی لیے پیدائش کےبعد آذان و اقامت اور جب بولنے لگے، تو ذکر اللہ کی ترغیب و ترہیب دی گئی ہے۔
اس جدید تعلیم کے نتیجے میں ایسے ایسے واقعات و حالات رونما ہو رہے ہیںکہ جس کے اندر ذرہ برابر بھی ایمان باقی ہوگا اور وہ ایمان کی قدر و قیمت کو جانتا ہوگا، ان کو دیکھ کر اس کا دل چھلنی ہو جاتا ہےاور عہد کرتا ہے کہ ایسی تعلیم کے مقابلہ میں بھوک اور پیاس کی بنا پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی جان دے دے گا، لیکن وہ کسی بھی قیمت پر ایسی تعلیم نہ اپنے لیے پسند کرے گا اور نہ اپنی اولاد کے لیے۔
شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
مخلوط تعلیمی نظام
علم سیکھنے سکھانے کا کوئی انکار نہیں کرتا؛ مگر مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ علم حاصل کرنے میں انسان ایمان سے ہاتھ سے دھو بیٹھے، بلکہ جو علم ایمان و یقین میں بگاڑ و فساد پید کرے، اس پر لعنت اور دھتکار ہے۔
اس تعلق سے یہ مذکورہ اشعار نہایت موزوں ہیں
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
اسلام میں نہ تو کسی مشترک کلچر پروگرام کی گنجائش ہے، نہ مخلوط تعلیم کی، دراصل مغرب نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو مٹانے کے بجائے تعلیم کے نام پر وہ ایسی نسل تیار کرنا چاہتا ہے کہ جو رنگ و نسل کے اعتبار سے اگرچہ مسلمان ہوں، مگر افکار و نظریات، مزاج اور مذاق کے اعتبار سے پوری طرح مغرب کی فکر و نظر سے ہم آہنگ ہو۔
:اکبر الہ آبادی ؒ نے اسی کی منظر کشی کی ہے
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کا کالج کی نہ سوجھی
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ دین اسلام تعلیم نسواں کا مخالف ہے؛ بلکہ وہ اجنبی مرد اور اجنبی عورت کے مخلوط معاشرت سے منع کرتا ہے اور وہ مخلوط معاشرہ کو نہ عبادات میں پسند کرتا ہے اور نہ معاملات میں۔
مخلوط نظام کے نقصانات
آپ حصول علم میں ہوں یا دیگر شعبۂ جات میں لگے ہوں، ہر ایک لیے کامل توجہ اور یکسوئی بہت ضروری ہے، جبکہ مخلوط نظام میں ذہنی چین و سکون کا سب سےزیادہ فقدان ہوتا ہے، صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہمہ وقت اپنے لب و رخسار، لباس و اطوار اور اپنی چال ڈھال کو خوشنما بنانے کے لیے ہر وقت مگن رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ذہنی سکون اور یکسوئی بالکل حاصل نہیں ہوتی، خوب سے خوب تر نظر آنے کی خواہش ایک فطری بات ہے، اگر کسی مرد یا عورت کو یہ پتہ چل جائے کہ کوئی غیر محرم صنف مخالف اس کو دیکھ رہا ہے یا اس کی باتیں سن رہا ہے، تو عموعاً وہ شخص اس صنف مخالف کو لبھانے اور اپنی طرف راغب کرنے لے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔
یہ تو دنیوی نقصانات ہیں، لیکن دینی خرابیاں اس سے کہیں زیادہ ہیں، آپ جانتے کہ عورت بہت زیادہ نرممزاج، جلدہی کسی کے بہکاوے میں آ جانے والی اور مذہب کے نام پر دل کھول کر بیٹھ جانی والی ذات ہے، کبھی کبھی یہی چیزیں وبال جان و دین بن جاتی ہیں۔
اس نظام سے دشمنان دین کا ہماری ماؤں اور بہنوں تک پہنچنے اور ان سے میل میلاپ میں حد درجہ آسانی اور سہولت ہو جاتی ہے۔
یہ تو خواتین کی باتیں ہیں، مرد حضرات بھی دینی شکوک و شبہات کے شکار ہو رہے ہیں اور بعد از آں دین و ایمان کا سودا کر رہے ہیں۔
بچوں کی تربیت میں لاپرواہی
بچے آپ کا ہی نہیں، بککہ قوم کا بھی سرمایہ ہیں، اگر آپ نے صرف اسکولوں اور کالجوں پر انہیں چھوڑ دیا، تو وہاں سے وہ نسل آپ کو کبھی بھی نہیں ملے گی، بلکہ اس کے لیے ہمیں خود ہی ذمہ داری لینی پڑے گی۔
شحیح تعلیم و تربیت ایک اہم دینی فریضہ ہے، اس کی عدم ادائیگی اور لاپرواہی پر سخت گرفت کا سامنا ہوگا اور اس کا تعلق اور شروعات ربانی تعلیمات سے ہونی چاہئے، ’’ اِقْرَأ بِاِسْمِ رَبِّک‘‘ اپنے رب کے نام سے پڑھیے، اس میں واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ رب کے تعلق کے بغیر پڑھنا پڑھانا ناکافی ہے۔
اس وقت ماحول اتنا خطرناک چل رہا ہے کہ اولاد تیزی سے ماں باپ کے ہاتھوں سے نکل رہی ہے، بچے والدین کے قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، ایسے میں دینی تعلیم و تربیت اور زیادہ اہم اور ضروری ہوجاتی ، اس لیے کہ دین اسلام ہی آپ کے بچوں کو دنیا و آخرت میں سرخروئی عطا کرے گا، آپ کا تابعدار اور پاکیزہ کردار کا مالک بنائے گا، آداب و مرؤت سکھائے گا، مطیع و فرمانبردار ی والی زندگی دے گا۔
دوسری بات یہ کہ اسلامی تعلیم و تربیت اس کا حق بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام بچوں کے حقوق پر نہ صرف زور دیتا ہے، بلکہ ان کی بہترین تربیت کا طریقہ بھی سکھاتا ہے، حدیث شریف میںہے کہ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت دی جائے؛ تاکہ وہ تمام خروفات و شرور سے محفوظ رہے اور کوئی میٹھی چیز اس کے منہ میں ڈالی جائے، تاکہ یہ اخلاق اور شیریں زبان کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوسکے، ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے اور بچوں کے اچھے نام رکھے جائیں؛ کیوں کہ نام کا اثر شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ والدین اپنے بچوں کی بذات خود فکر کریں، انہیں نوکروں چاکروں اور دیگر تربیت گاہوں کے بھروسے پر نہ چھوڑیں، بچپن ہی سے اسلامی تعلیمات پر توجہ دیں، اگر بچہ غیر مسلم اداروں میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، تو بہت زیادہ ہوش مندی کی ضرورت ہے، کیوں کہ دوران تعلیم غیر اسلامی عقائد و کلچرکا رنگ چڑھنے لگتا ہے، غیراسلامی ماحول کے عادی ہو جاتا، جس کے نتیجےمیں کئی واقعات سننے کو ملا ہے کہ بچے اپنے دیندار والدین سے کہتے ہیں کہ جب عبادت اسی خدا اور بھگوان کی ہوتی ہے، تو روزانہ پانچ نمازوں کی کیا ضرورت ہے، دن میں ایک مرتبہ پوجا کر لیں، یہی کافی ہو جائے گی ۔( نعوذ باللہ )
موبائل و مغربی وسائل کا بے جا استعمال
آج موبائل فون کا استعمال دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے، نوجوان زیادہ تر وقت موبائل کو دے رہےہیں،پہلے اس طرح کا ماحول دیکھنے کو نہیں ملتا تھا۔
یہ مانا کہ کوئی بھی چیز بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا ثابت کرتا ہے، خنجر اگر قاتل کے ہاتھ میں ہو، تو زندگی سے محروم کر سکتا ہے اور اگر نشتر کی صورت میں کسی جراح یا سرجن کے ہاتھوں میں ہو، تو زندگی بچا سکتا ہے، آگ سے کتنے ہی مفید کا لیے جاسکتے ہیں، لیکن یہی آگ کسی کو جلا کر خاکستر بھی کر سکتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ موبائل فون کوئی بری چیز نہیں ہے، بلکہ اس کا ستعمال آپ کو اچھا یا برا بناتا ہے، اس لیے ہمیں بے حد احتیاطی اور چاق بندی سے اس سے صرف خوب خوب فائدہ اٹھانا ہے، کیوں کہ آج کل موبائل کا نشہ ایسا چڑ گیا ہے کہ کسی دن اس کے استعمال کے بغیر سکون نہیں ملتا، ذرا فرصت ملی موبائل ہاتھ میں، سوتے ہوئے موبائل، سوکر اٹھتے ہی موبائل، یہ شیطان کا کھلواڑ وقت کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے؟ اس سے اخلاق و کردار، ایمان جذبات و خیالات کے بگاڑ کا اندازہ لگانا مشکل ہے، تصاویر سے شریعت نے جو نفرت پیدا کی تھی، وہ کہاں گئی؟ عورتوں کی تصویر دیکھنا پہلے بھی گناہ تھا اور آج بھی گناہ ہے، شرم و حیا پر کس نے جھاڑو پھیر دیا۔
سوشل میڈیا سے بچے اور بچیاں غیروں کے رسم و رواج دیکھتے ہیں، ان کے معبودان باطلہ کی برستش کے مناظر کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، نتیجتاً برے اثرات بچوں کے ذہن و دماغ میں دھیرے دھیرے نقش ہو جاتا ۔
باطل عقائدہ و نظریات رکھنے والے مبلغین یا جدید ماڈرن اسلام کی تصورات رکھنے والے شیطانوں کے چیلے کی باتوں کا سننا اور پھر اس کے فریب کاری، مکاری اور دغابازی کو کم علمی اور لاعلمی کی وجہ سے دل و دماغ میں بیٹھانے کی کوشش کرنا اور پھر اسی کے مطابق ڈھالنے کی حتی الامکان سعی کرنا، یہ تمام چیزیں وہ ہیں، جو بےراہ روی کی طرف لے جانسے والی ہیں، اس لیے والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں ، انہیں موبائل کے فوائد و نقصات سے آگاہ کرتے رہا کریں، تاکہ نفع نقصان سے باخبر رہیں۔
کارٹون یا دیگر ویڈیوز کے ذریعے عقائد پر حملے
بچوں کی تربیت کے حوالے سے بڑی غفلت و لاپرواہی پرتی جا رہی ہے، بچے آہستہ آہستہ ماحول کی آلودگی کا اثر لےکر برے راستہ پر چل پڑتے ہیں، تو پھر وہ چھوٹے بڑے گناہ اور جرم کرنے سے دریغ نہیں کرتے ، اللہ کی نافرمانی، رشتہ داروں اور مخلوق کی ایذا رسانی، جھوٹ، دھوکہ، امانت میں خیانت، چغل خوری، ڈاکہ زنی، زنا، قل و رشوت، حرام خواری ان کا شیوہ بن جاتا ہے اور پھر بعض مرتبہ انسان ذہنی، فکری اور مذہبی ارتداد کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔
بے شمار ایمان سوز اور حیا سوز کارٹون، ڈرامے اور فلموں کے نام ہم آپ کو گنواں سکتے ہیں، جنہیں ہمارے بچے بچیاں بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن والدین اور ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتا، بلکہ اس سے خوش ہوتے ہیں کہ بچے ہماری جان چھوڑ کر رہ رہے ہیں، ضد اور پریشان نہیں کر تے ہیں، اس سے ہمیں بھی چین و سکون ہے اور بچوں کے لیے بھی مفید ہے۔
ہندو یا دیگر تشدد پسند تنظیموں کی سازشیں
شر پسند دشمن عناصر تنظیم بالخصوص بھگوا دھاری آر ایس ایس ہندو شدت پسند تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کی جو مہم جا ری ہے اور اس کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں، وہ تشویس ناک ہے۔
’’اسکولوں میں مسلمان بچوں کے ذہن میں ارتداد کا زہر گھولنے اور مذہب اسلام سے ان کو بیزار کرنے کے لیے آر ایس ایس کے منصوبے اور ان کی ناپاک سر گرمیوں کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے: اطلاعات کے مطابق آر ایس ایس کی جانب سے ایک منظم پروگرام کے تحت سیکڑوں مسلمان بچوں کو ہند و شناخت کے ساتھ آر ایس ایس کے ٹریننگ کیمپ میں بھیجا جا رہا ہے، وہاں ان کو بھگوان کی مورتیوں کی پوجا سمیت ہندو مذہبی تعلیمات سے ورشناس کرایا جا رہا ہے، کیمپوں میں مسلمان بچوں کو یہ باور کرایا جا رہا کہ کسی مسلمان کا نام ہندووانہ نام ہونا یا رکھنا کوئی مسئلہ نہیں، اگر کہیں انہیں اپنے ہندووانہ نام سے کوئی مسئلہ درپیش ہو جائے، تو انہیں چاہئے کہ وہ آر ایس ایس کی جانب سے ’’ رضا کاروں کے نام پر جاری کردہ شناختی کارڈ‘‘ کو استعمال کریں، جس میں مسلم طلبہ کو ہندو نام دئے گیے ہیں۔
مسلمان طلبہ کے خلاف یہ سازش اس وقت آشکارہ ہوئی، جب اتر پردیش کے سدھارتھ نگر سے تعلق رکھنے والے ایک کم سن آٹھویں کلاس کا مسلمان طالب علم گلزار احمد کے والد محبوب احمد نے سدھارتھ نگر کوتوالی، پرتی بازار پولس اسٹیشن میں درخواست دی کہ ان کے بیٹے گلزار احمد کو ان کے ہیڈ ماسٹر نے ایجوکیشن ٹور کے نام پر ہندو نام کی شناخت دے کر آر ایس ایس ٹریننگ کیمپ میں بھیج دیا ہے۔‘‘
(کفر و اتداد کا زمانہ اور امت مسلمہ کی غفلت و بے حسی صف: ۱۱۴)
’’بعض اسکولوں میں باضابطہ سرسوتی کی مورتی رکھی جاتی ہے، جن کو ہندو آئیڈیا لوجی کے مطابق تعلیم کی دیوی ماناگیا ہے اور بلا فرق مذہب تمام بچوں سے کہا جاتا ہے کہ اس پر پانی اور پھول چڑھائیں۔،،
’’بعض اسکولوں میں ریاستی سرکار کے حکم نامے کے تحت سال میں ایک دن سورج کی پرستش کی جاتی ہے، اس کو ’’ سوریہ نمسکار‘‘ کہا جاتا ہے اور تمام طلبہ و طالبات کو اس کا پابند بنایا جاتا ہے۔‘‘
(ماہنامہ ارمغان ولی اللہ، پھلت مظفر نگر، مارچ ۲۰۱۵ص: ۱۴)
ہندو تنظیموں کے علاوہ دوسری بہت سی جماعتیں اور تنظیمیں اس ارتدادی مشن میں سر گرم عمل ہیں، صرف ہمارے ملک ہندوستان میں ہی نہیں؛ بلکہ پوری دنیا میں عالمی پیمانے پر مسلمانوںکو ذہنی، فکری اور تہذیبی مرتد بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
نفسانی خواہشات کی اتباع
انسان کے اندر خواہش کا ہونا کوئی بری بات نہیں ہے؛ بلکہ درحقیقت یہ اللہ تعالی بڑی نعمت ہے، البتہ ناجائز اور حرام جگہوں میں خواہش کو استعمال کرنا یہ حرام، ناجائز اور ممنوع و قبیح ہے۔
انسانی خواہشات کی پیروی بڑا خطرناک مرض ہے، جس نے ہمیشہ راہِ راست و صراط مستقیم سے لوگوں کو ہٹایا اور گمراہی کے غار میں ڈھکیلا ہے، معلوم نہیں کہ اس بیماری کے شکار کتنے لوگوں کو اس نے جہنم رسید کیا ہے؟ اس کی جانب قرآن کریم میں بھی اشارہ ہے کہ اتباع خواہشات کی وجہ سے غلو پیدا ہوتا ہے، چناں چہ فرمایا گیا: ’’ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ وَکَانَ اَمْرُہ فُرُطًا‘‘ اور تم پیروی نہ کرو اس کی جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی اتباع کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔
(غلو فی الدین، حقیقت، اسباب اور صورتیں ص :۱۳۷)
محمد بن سیرین ؒ فرمایا کرتے تھے: ’’ اِنَّ اَسْرَعَ النَّاسِ رِدَّۃً اھْلُ الاَھْوَا‘‘ کہ خواہشات کے پیچھے چلنے والے سب سے جلدی ارتداد کی طرف بڑھتے ہیں۔
پتہ چلا کہ خواہشات کا اتباع اور شہوات کی پیروی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اس کا انجام بے ایمانی و بے دینی اور ایمان و یقین سے محرومی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ فقر و تنگدستی، بچوں کو خاندان اور امور خانہ داری میں حق نہ ملنا، نکاح میں تاخیر، مصرفانہ شادی بیاہ ، گھریلو و معاشرتی بگاڑ وغیرہ یہ تمام چیزیں ہیں، جن کی طرف غور و خوض اور توجہ کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ہماری نئی نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت ہو سکیں۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، کیا حال ہے جناب؟