فکری ارتداد کی چند مثالیں
فکری ارتداد کی چند وہ مثالیں، جن کا جاننا اور ان سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
نمبرایک: فکری ارتداد کی ایک صورت یہ ہے کہ بہت سے لوگ قرآن و دین کی تعلیم کو لغو و فضول خیال کرتے اور دینی مدارس و مکاتب اور دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو حقیر سمجھتے اور اس کے مقابلے میں دنیوی تعلیم کو بہت اہم و ضروری اور دنیوی تعلیمی ادروں کو اور عصری علوم پڑھنے والوں کو بہ نگاہ عظمت دیکھتے ہیں۔
اہل اسلام کے نزدیک یہ مسلم ہے اور دلائل سے ثابت شدہ ہے: قرآن و شریعت کے بغیر اسلامی زندگی کا کوئی تصور نہیں اور نجات کا دارو مدار بھی اسی پر ہے اور قرآن و سنت کی تعلیم و تدریس ، اس کے لیے دینی مدارس و مکاتب و تعلیم گاہیں اور ماہر علما و صلحا کا وجود لازم و ضروری ہے۔
نمبردو: بہت سے لوگ ایسے ملیں گے، جو قرآن و سنت کے احکام و فرامین کو دنیوی زندگی کے لیے نافذ العمل ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتے ؛ بالفاظ دیگر یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن تو صرف پڑھنے کے لیے ہے، تاکہ آخرت میں ثواب مل سکے۔
یہ ہمیں ہماری زندگی کے ہر شعبے میں رہبری کرنے کے لیے ناکافی ہے، خواہ ہماری معاملاتی زندگی ہو یا معاشرتی زندگی ہو، سیاسی زندگی ہو یا ثقافتی زندگی ہواور ستم بالائے ستم یہ کہ ایسے لوگوں کو اگر سمجھانے کی کوشش کی جائے، تو وہ سمجھانے والے کو بیوقوف اور احمق سمجھتے ہیں۔
نمبرتین: شراب اور خنزیر کو یہ سوچ کر معیوب نہ سمجھنا کہ پہلے تو یہ گندے ہوا کرتے تھے، شراب کو گندے طریقے سے بنایا جاتا تھا، خنزیر نجس اور گندگی کھایا کرتا تھا، اب تو حفظانِ صحت کے اصولوں کا لحاظ رکھتے ہوئے صاف ستھری شراب بنائی جاتی ہے، بیئر کے بارے میں تو حد درجہ لوگوں کا تبصرہ سنا ہے کہ یہ طاقت و قوت اور مٹاپے کے لیے بےحد مفید و معاون ہے۔
خنزیر کے صاف ستھرے فارم ہوتے ہیں، جہاں ان کی حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق پرورش ہوتی ہے؛ انہیں کھانے کے لیے صاف ستھری غذائیں دی جاتی ہیں، اس لیے اب تو ان میں نرمی برتنی چاہیے۔
نمبرچار: عورتوں کے لیے پردہ کا یہ کہہ کر انکار کرنا کہ اب زمانہ بدل گیا ہے ، عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہیے، انہیں کام کاج، شاپنگ، جاب اور تعلیم وغیرہ کے لیے مردوں کی طرح باہر نکلنا پڑتا ہے، اس لیے اگر وہ پردہ کریں گی، تو یہ سب کام کیسے کر سکیں گی ، حالاں کہ حدود شرع میں رہ کر باپردہ جاب وغیرہ کرنے میں حرج نہیں ہے اور کرتی بھی ہیں، لیکن اس کے لیے گارجین کی نگرانی ازحد ضروری ہے، کیوں کہ بندۂ ناچیز بھی جاب کرتا ہے ، اس بنا پر مرد و زن کی نا قابل یقین تعلقات اور کرتوتوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ان کے عمل قبیح سے شاید شیطان بھی شرما جاتا ہوگا۔
نمبرپانچ: ربا یعنی سود کو پرافٹ کا نام دے کر حلال کردینا چاہیے اور وہی قدیم بے جا نعرہ ’’ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ‘‘ یعنی بیع بھی تو سود کی طرح ہے۔
زمانہ کی مجبوریاں و دشواریاں اس پر سے دنیا کا اقتصادی و معاشی نظام سود کے بغیر ناممکن سا ہے؛ لہذا ایسی حالات میں ہمیں اس بارے میں نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
نمبرچھ: تصویر سازی کو یہ کہہ کر خفیف سمجھنا کہ اب تووہ زمانہ قدیم کی طرح پتھروں کے بت اور مجسمے نہیںہیں، جنہیں شرک سے بچنے کے لیے منع کیا گیا تھا؛ لہذا آج کے زمانے کی فوٹو گرافی میں کوئی حرج نہیں، اس لیے ان کو حلال ہی ہونا چاہیے
نمبرسات: زنا کو یہ کہہ کر جائز قرار دینے کی کوشش کرنا کہ زنا تو بالجبر ہی ممنوع ہونا چاہیے، جس میں دوسرے کی رضا مندی کے بغیر یہ کام ہوتا ہے اور جب وہ عاقل و بالغ لڑکا اور لڑکی آپس میں بخوشی راضی ہوں، تو ان کے باہم ملنے میں کیا قباحت ہے، جیسے بائع اور مشتری بخوشی راضی ہوکر بیع کا معاملہ کرنا چاہیں، تو کوئی حرج نہیں ہے۔
حالاں کہ زنا کی ایسی بہت سی شکلیں آج معاشرے میں رائج ہو رہی ہیں، جن کو زنا ہونے کے باوجود بھی زنا نہیں کہا جاتا، مثلاً طلاق دینے کے بعد بھی اکٹھے رہنا اور ’’ ایک مجلس میں تین طلاقوں‘‘ کا ایک ہی طلاق کا فتوی لے کر اس کو ایک ہی سمجھنا اور اس کے بعد ساری زندگی اس حرام کاری میں مبتلا رہنا، یہ سب ایسی شکلیں ہیں، جن کی آڑ میں زنا، بدکاری معاشرے میں رائج ہوتی جارہی ہیں۔
نمبرآٹھ: موسیقی، میوزک، گانا بجانا سب ناجائز ہے ، اس کے باوجود ان سب کو ’’ روح کی غذا‘‘ کا نام دیا جانا اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان غلیظ اور بدبودار چیزوں کو نعتوں، اسلامی نظموں اور دینی پروگراموں کا حصہ بنا نا انتہائی بیہودہ اور نازیبا حرکت اور دین و شریعت کی تذلیل ہے۔
نمبرنو: ٹی وی جو کہ تصویر بینی، فحاشی و عریانیت کے فروغ اور ذہنی تخریب کا سب سے مؤثر اور بڑا ذریعہ ہے اور جس کے روز افزوں مضرتوں اور مفاسد سے کوئی عقل سلیم کا پیکر انکار نہیں کر سکتا، اس کے باوجود یہ کہنا کہ آخر اس میں کیا قباحب و شناعت ہے، حالات حاضرہ سے باخبر رہنا چاہیے ، اس میں دینی و اصلاحی پروگرام بھی تو آتے ہیں۔
نمبردس: دھوکہ دہی، جھوٹ اور فریب، جس کا قرآن و احادیث کے اندر اتنی واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، لیکن اسے مجبوری، ضرورت اور کمانے کا ذریعہ کہہ کر جائز کرنے کی کوشش کرنا اور بے جا دلیل دینا کہ اس کے بغیر کاروبار نہیں چل سکتا، معاشرے میں سچے اور امانت دار تاجر کو ایک ناکام تاجر قرار دیا جاتا ہے، اس لیے اس بارے کچھ نرم رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
نمبر گیارہ: اسلام نے جو عورتوں کو حقوق دئے ہیں، انہیں کم سمجھنا یا ان سے عورتوں کی حق تلفی گمان کرنا۔
نمبربارہ: بعض صورتوں میں عورتوں کومردوں کے مقابلے میں میراث کا نصف حصہ ملنے پر اعتراض کرنا یا یہ تصور کرنا کہ جب اسلام میں عورتوں پر خرچہ کی ذمہ داری نہیں ہے، تو ان کو میراث کیوں دی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ؟
نمبرتیرہ: مردوں کو طلاق کا حق دئے جانے پر ناانصافی بتلانا۔
نمبرچودہ: ازواج مطہرات ؓ و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر کیچڑ اچھالنا یا اعتراض کرنے والوں کی تائید کرنا ، انہیں معیار حق نہ سمجھنا۔
نمبرپندرہ: اسلامی سزاؤں اور قانون کو وحشیانہ گرادننا۔
نمبرسولہ: روزہ نماز یا دیگر عبادتوں کو بےکار اور تھکنے سے تعبیر کرنا۔
اور بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جن کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ، بہر کیف یہ لوگ گمراہی اور ارتداد کا شکار ہیں، جن کی ایمان کی فکر کرنے کی ضرورت ہے، جنہیں خالص اسلام کی طرف متوجہ کرنے کی حاجت ہےاور انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ نبی آخر الزماں ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آخر زمانے میں لوگ نماز روزہ پڑھیں گے، زکوۃ و حج ادا کریں گے؛ لیکن پھر بھی مرتد ہوں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ سیأتی علی امتی زمانٌ یصلی فی المسجد منہم الفُ رجلٍ و زیادۃٌ لایکون فیہم مومنٌ‘‘ عنقریب میری امت پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ مسجد میں نماز پڑھیں گے، ان میں سے ہزار آدمی یا اس سے زیادہ آدمی ہوں گے (مگر) ان میں کوئی ایمان والانہیں ہوگا۔
(دیلمی ۳۲۴۵)
دوسری روایت میں حضرت عبداللہ بن عمر بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ حج کر رہے ہوں گے، نماز روزہ کر رہے ہوں گے؛ لیکن ان میں کوئی ایمان والا نہیں ہوگا۔
(اتحاف الجماعۃ ۲؍ ۴۸)