عیدین کی خوشیاں اور اظہارِ بندگی
دین اسلام کا یہ مزاج ہے کہ آپ جائز حدود میں رہ کر ہر وہ کام کر سکتے ہیں، جس سے آپ کے قلب و روح کو بھی تسکین ملے اور جسم کو بھی طمانیت کا احساس ہو۔
مضمون
شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ کو عید الفطر کہتے ہیں، یہ لفظ ’’عود‘‘ سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں لوٹنا، مفرادات القرآن کے مصنف امام راغب الاصفہانیؒ نے لکھا ہے کہ عید وہ ہے، جو بار بار عود کرے یعنی لوٹ کر آئے، عربوں نے اس لفظ کو خوشی اور مسرت کے دن کے لیے مخصوص کرلیا ہے، قرآن کریم میں اس معنی میں یہ لفظ حضرت عیسی علیہ السلام کی اس دعا میں استعمال کیا گیا ہے: ’’قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ ۖ وَ ارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ‘‘ عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے اللہ، اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اتار، جو ہمارے پہلوں اور ہمارے پچھلوں کے لیے عید ہو(باعث مسرت ہو) اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تو سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔
(سورہ مائدہ، آیت نمبر: ۱۱۴)
شریعت کی اصطلاح میں یہ لفظ عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے خاص ہے اور انہیں حدیث شریف میں ایام اکل و شرب (کھانے پینے کے دن)کے طور پربھی متعارف کرایا گیا ہے۔
اسلام خشک مذہب نہیں ہے، نہ وہ جسمانی اور ذہنی تفریحات کے خلاف ہے؛ بلکہ آپ جائز حدود میں رہ کر ہر وہ کام کر سکتے ہیں، جس سے آپ کے قلب و روح کو بھی تسکین ملے اور جسم کو بھی طمانیت کا احساس ہو۔
اسلام نے سال بھر میں عید کے صرف دو دن مقرر کیے ہیں، ایک: عید الفطر تو رمضان المبارک کی عبادات فاضلہ صوم و صلوۃ وغیرہ کی انجام دہی کے لیے توفیق الہی کے عطا ہونے پر اظہار تشکر و مسرت کے طور پر منائی جاتی ہے ۔
دوسرا: عیدا لاضحی اس وقت منائی جاتی ہے، جبکہ مسلمانان عالم کی ایک عظیم الشان اجتماعی عبادت یعنی حج کی تکمیل کر رہے ہوتےہیں اور ظاہر ہے کہ عبادات کے اختتام اور انجام پانے کی خوشی کوئی دنیوی خوشی نہیں ہے، جس کا اظہار دنیاوی رسم و رواج کے مطابق کرلیا جاتا ہے، یہ ایک دینی خوشی ہے اور اس کے اظہار کا طریقہ بھی دینی ہی ہونا چاہیے، اس لیے اس میں اظہار مسرت اور خوشی منانے کا اسلامی طریقہ یہ قرار پایا کہ اللہ تعالی کے حضور سجدہ شکر بجا لایا جائے۔
دنیا کی قوموں کی طرح نہیں کہ اپنے تہوار اور خوشی کے دنوں میں لہو و لعب، ناچ گانے، شراب نوشی اور تفریحات کو پسند کرتے ہیں، اگلے پچھلے رنج و غم اور مصائب کو بھول کر وقتی خوشی میں ایسے سرشار ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی سدھ بدھ ہی نہیں رہتی۔
رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہ دیکھا کہ مدینے کے لوگ دوتہوار مناتے ہیں اور ان دونوں میں کھیل تماشے کیا کرتے ہیں۔
، سرور دوعالم ﷺ نے دریافت کیا کہ یہ دو دن کیسے ہیں: کہنے لگے کہ ہم جاہلیت کے زمانے میں ان دونوں کو کھیل کود کے دن کے طور پر منایا کرتے تھے۔
، سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے تمہارے ان دوتہواروں کے بدلےمیں ان سے بہتردو دن تمہارے لیے مقرر کر دئے ہیں (ایک) عید الاضحی کا اور (دوسرا) عید الفطر کا دن ۔
(ابوداؤد ،ج:۱، ص:۳۶۴، رقم الحدیث: ۱۱۳۴)
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام انسانی فطرت کے تقاضوں کی نفی نہیں کرتا؛ بلکہ وہ ان کی تکمیل کرتا ہے، خوشی اور مسرت کا اظہار انسانی فطرت کے تقاضا ہے اور اس مقصد کے لیے دور جاہلیت میں اہل مدینہ دو دن خاص رکھتے تھے، اسلام نے ان دونوں کو اظہار مسرت کے دن کے ساتھ ساتھ عبادت کا رنگ بھی دے دیا، دونوں دنوں میں مسلمان عید گاہ جاتے ہیں اور دوگانہ نماز ادا کرتے ہیں، یہ دونوں تہوار اسلام کے توحیدی مزاج اور اس کی صاف ستھری تعلیمات کے عین مطابق ہیں؛ کیوں کہ عید الفطر مسلمانوں کا قومی و ملی تہوار بھی ہے اور عبادت بھی، اسی لیے فقہاء نے سرکار دوعالم ﷺ کے اقوال و افعال کی روشنی میں ان کے احکام بھی مرتب کرکے امت کے سامنے رکھ دیے ہیں، عید تو ہم منائیں گے ہی اگر اس دن کو شریعت کے حکم کے مطابق اور سرور دوعالم ﷺ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں منائیں، تو یہ ہمارے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔
آج افسوس کا مقام ہے کہ دیگر قوموں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی عید کو محض ایک تہوار سمجھ لیا ہے اور اظہار بندگی کا جذبہ ذہنوں سے بالکل محو ہوتا چلا جا رہا ہے، جیسے ہی عید کا چاند نظر آتا ہے مردوں و عورتوں کا ایک ہجوم سا لگ جاتا ہے، گانے بجانے کی آوازوں سے کان پڑی آواز سنائی دیتی ہے، اتنا مبارک وقت لہو و لعب خر مستیوں اور مٹر گشتیوں میں ضائع کر دیا جاتا ہے، عید کے دن دوگانہ کی ادائیگی کے بعد انہیں لغویات کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہتا ہے، جو صورتِ حال اہل اسلام کی اسلامی شان کے بالکل خلاف ہے، اگر ہم بھی یہی طریقہ اپنانے لگیں گے، تو ہم میں اور غیروں میں آخر کیا فرق باقی رہے گا؟
اس لیے ضروری ہے کہ عید کو اسلامی شان و شوکت کے ساتھ منایا جائے، یہ شان و شوکت اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے، جب کہ ہم اپنی عید کو ہر گناہ اور معصیت سے محفوظ رکھیںاور بندگی کے اظہار میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔
اللہ تبارک و تعالی صحیح معنی میں ہمیں اپنی بندگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا حال ہے جناب؟