اسلام میں آزادی کی قدر و قیمت
انسان اپنی فطرت سے ایک آزاد مخلوق ہے، اللہ تبارک و تعالی نے اس کو آزاد پیدا کیا ہے اور اس کا منشاء بھی یہی ہے کہ وہ آزاد رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انبیاء کرام علیہ الصلاۃ والتسلیم اپنی اپنی قوم کو غلامی و محکومی کی زندگی سے آزاد کرا کر ایک خدائے وحدہ لا شریک لہ کی محکومی اور غلامی کی زندگی بسر کرنے کی تاکید کرتے رہے، مثلاً: قرآن پاک کی آیات بڑی صاف اور واضح طور پر حضرت موسی علی نبینا علیہ الصلاۃ والتسلیم کی بعثت کا ایک اہم مقصد بنی اسرائیل کو غلامی سے بچانا اور فرعون کے پنجۂ خون سے نجات دلانا بیان کیا ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: “اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِى الۡاَرۡضِ وَجَعَلَ اَهۡلَهَا شِيَـعًا يَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَةً مِّنۡهُمۡ يُذَبِّحُ اَبۡنَآءَهُمۡ وَيَسۡتَحۡىٖ نِسَآءَهُمۡ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِيۡنَ ۞ وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى ٱلَّذِينَ ٱسۡتُضۡعِفُواْ فِي ٱلۡأَرۡضِ وَنَجۡعَلَهُمۡ أَئِمَّةࣰ وَنَجۡعَلَهُمُ ٱلۡوَٰرِثِينَ ۞ وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَحْذَرُوْنَ ۞
( سورہ القصص، آیت نمبر: ٤ تا ٦)
ترجمہ: فرعون ملک (مصر) میں بہت چڑھ گیا تھا اور اس نے وہاں کے باشندوں کو کئی گروہوں میں بانٹ رکھا تھا، ان میں سے ایک گروہ کو وہ کمزور سمجھ کر ان کے لڑکوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا تھا، وہ بڑا مفسد تھا اور ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر جو ملک میں کمزور سمجھے جا رہے تھے، احسان کرے اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں وہاں کا وارث بنا دیں اور اس سرزمین میں انہیں حکومت دیں اور فرعون، ہامان اور ان کے لشکروں کو ان کے ہاتھ سے وہ دکھا دے، جن کا ان کو خطرہ تھا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آب و گل میں تشریف لائے، تو اس وقت کی دو مضبوط بازنطینی اور ساسانی سلطنت عوام الناس کو بری طرح جکڑ رکھی تھی۔
مجموعی طور پر پوری دنیا دو گروہوں میں منقسم تھی:
نمبر (١) بعض لوگ وہ تھے، جو تمام تر وسائل زندگی پر قابض ہونے کی وجہ سے مضبوط اور مستحکم پوزیشن میں تھے، وہ سمجھتے تھے کہ اقتدار اور بالادستی ان کا پیدائشی حق ہے، باقی لوگ صرف محکومیت اور اطاعت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔
نمبر (٢) دوسری گروہ کے لوگ وہ تھے، جو اپنے آپ کو کمزور بے بس اور لاچار محسوس کرنے کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی طور پر غلام بن چکے تھے اور اس پر ظالم و جابر زمیندار اور حاکم ڈرا دھمکا کر نہ عقیدہ وہ مذہب کی آزادی چھوڑا تھا، نہ ہی کسبِ معاش کا حق دیا تھا اور نہ ہی کسی چیز پر مالکانہ حقوق حاصل تھے، جس میں اپنی مرضی سے تصرف کر سکے۔
الغرض یہ لوگ بظاہر انسان تھے، مگر انسانیت کے حوالے سے جو احترام، اعزاز اور مقام انہیں حاصل ہونا چاہیے تھا، اس سے بالکلیہ محروم تھے۔
ان حالات میں اسلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی انسانیت کو یہ مزدہ سنایا: “وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ”
ترجمہ: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔
(سورۃ أعراف آیت نمبر ١٥٧)
اور دوسری جگہ ارشاد ہے: “مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا”
ترجمہ: جس نے ایک جان کو کسی جان کے (بدلے کے) بغیر یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا، تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا۔
(سورۃ المائدہ، آیت نمبر: ٣٢)
مذکورہ بالا آیت سے یہ ثابت ہوگیا کہ اسلام کی آمد دبے کچلے لوگوں کے لیے مژدۂ جاں فزا تھی، جو صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور اس میں کسی مسلم غیر مسلم، اپنے پرائے کی تخصیص نہیں ہے۔
شخصی آزادی ہو یا اجتماعی آزادی مذہب اسلام نے شنیع اور قبیح سمجھا ہے، اس سلسلہ میں اس نے جو کار ہائے نمایاں انجام دئے ہیں، ان کی تفصیل بیان کرنے لگوں، تو کئی صفحات سیاہ ہو جائیں گے، حدیث و سیرت کی کتابوں میں سینکڑوں واقعات ملتے ہیں، آزاد تو آزاد شرعی حیثیت سے جو غلام تھے، ان تک کو حضور نے آزادئ رائے کا پورا پورا اختیار دے رکھا تھا، جس کی وجہ سے مرد ہی نہیں غلام عورتیں تک بڑی جرأت کے آپ سے ہم کلام ہوتیں۔
تفصیل کے لیے دیکھیں مستند کتابیں۔
ہندوستان پر جب فرنگیوں کا تسلط ہوا اور اس نے اپنی ناپاک سازشوں سے یہاں کی عوام کو غلام سمجھ بیٹھا، ان کی زمین و جائیداد پر ناحق مالکانہ قبضہ کرنے لگا اور دین و دھرم پر پابندیاں عائد کرنے کی ناکام کوششیں کی، تو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیروکار، اصحابِ رسول کے متبعین اور ان کے طریقے و سلیقے کو حرز جاں بنائے ہوئے علمائے دین شرحِ متین نے سب سے پہلے علمِ بغاوت بلند کی، آزادی کی مہم چھیڑ دی؛ لہذا دیکھتے ہی دیکھتے یہ مہم آگ کی طرح پھیل گئی اور ہر ایک نے حت الوسع بقدر استطاعت حصہ لیا، آخر کار تن کے گورے اور من کے کالے انگریزوں کو منہ کی کھانی پڑی اور ہندوستان چھوڑ کر 15/ اگست 1947 کو چھوڑ کر بھاگ گیا، اس نعمت عظمی اور آزادی کے حصول کے لیے بے شمار جدوجہد اور قربانیاں پیش کی گئیں، جن کی ایک مکمل داستان اور سچائیاں ہیں۔
جن کے بارے میں تفصیلات آئندہ مضامین میں پیش کیے جائیں گے۔ (ان شاء اللہ )
زبردست، اللهم زدفز۔